نماز کے متعلق سوالات

  • Admin
  • Dec 01, 2021

ہوائی جہازمیں نماز  کا کیا حکم ہے؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

    ہوائی جہازکی تین حالتیں  ہوتی ہیں (1)ہوائی جہازائیرپورٹ پرکھڑاہے(2)ہوامیں پرواز کررہاہے(3)رن وے پرچل رہاہے۔پہلی دونوں صورتوں میں نماز ہو جائے گی اوراس کے اعادہ کی بھی حاجت نہیں کہ پہلی صورت میں جہاز کوزمین پراستقرارحاصل ہے اوردوسری صورت میں اس کا حکم بیچ سمند رمیں چلتی  ہوئی کشتی  کاہے کہ اس میں نماز ہو جاتی ہے دونوں  میں وجہ مناسبت یہ ہے کہ جیسے کشتی سے باہر زمین پر آکر نماز نہیں پڑھ سکتااور کشتی روکنے سے زمین پر نہیں رُکے گی  ایسے ہی اُڑتے ہوئے جہاز میں ہے ۔

    آخری صورت کہ جب رن وے پرجہازچل رہاہےتواس میں فرض، واجب اورسنتِ فجر ادا نہیں ہونگےکہ اس کوزمین پر استقرار حاصل نہیں ہوتانیزاس کو روکنا پائلٹ  کے ہاتھ میں ہوتا ہے اگرروکے توزمین پررک سکتاہے لہذاعذر من جہت العباد (بندے کی طرف سے عذر)ہوااور ایسے عذر کی وجہ سےحکم یہی ہوتا ہے کہ مذکورہ نمازیں نہیں ہوں سکتی ہاں اگر وقت جاتا دیکھے تو نماز پڑھ لے اور عذر زائل ہونے کے بعد اعادہ کرے ۔

    مزید اس میں یہ صورت بھی ہو سکتی ہےکہ  نماز پڑھ رہے تھے اور جہاز ٹھہرا ہوا تھا دورانِ نمازچل پڑا یا اُڑ رہا تھا اتراتو نماز فاسد ہو جائے گی جیسا کہ کھڑی ہو ئی  ٹرین اور گاڑی میں نماز پڑھ رہے ہوں اور وہ چل پڑھے تو یہ ہی حکم  ہوتاہے ۔

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم

 

نماز میں قراءت کتنی آواز سے کریں؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

    نماز یا نماز کے علاوہ جہاں پر شرعاً کچھ پڑھنا مقرر کیا گیا ہے اس میں کم ازکم اتنی آواز ہوناضروری ہے کہ جب کوئی مانع مثلاً شور وغل یا اونچاسننے کا مرض وغیرہ نہ ہوتوآدمی خود سن سکے۔بغیرآواز کے فقط زبان ہلانے کاکچھ اعتبار نہیں کیونکہ پڑھنے کے لئے آواز درکار ہے اور بغیر آواز کے زبان کی حرکت کولغت و عرف میں پڑھنا نہیں کہا جاتا۔لہذا اگردوران نماز قراءت میں  آواز پیدا نہ ہوئی صرف زبان ہلی تو یہ قراءت نہ ہوگی اور ظاہر ہےاس طرح قراءت کا فرض ادا نہ ہونے کی وجہ سےنماز بھی نہ ہوگی۔

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم

 

سجدے میں پاؤں کی کتنی انگلیاں لگانا ضروری ہے؟

 

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

     امام ہو یا عام نمازی سجدہ میں دونوں پاؤں کی دس انگلیوں میں سے کسی ایک انگلی کا پیٹ زمین پر لگنا فرض ہے اور ہر پاؤں کی تین تین انگلیوں کا پیٹ زمین پر لگنا واجب ہے اور دونوں پاؤں کی دسوں انگلیوں کا پیٹ زمین پر لگنا اور ان کا قبلہ رو ہونا سنت ہے۔ اگر کسی نے اس طرح سجدہ کیا کہ دونوں پاؤں زمین سے اٹھے رہے یا پاؤں کا صرف ظاہری حصہ زمین پر لگایا یا صرف انگلیوں کی نوک لگائی اور ایک بھی انگلی کا پیٹ زمین پر نہ لگا تو نماز نہیں ہوگی، اس نماز کو دوبارہ درست طریقہ کے ساتھ پڑھنا فرض ہوگا۔ اسی طرح اگر ایک انگلی کا پیٹ تو زمین پر لگایا مگر دونوں پاؤں کی تین تین انگلیوں کا پیٹ زمین پر نہ لگایا تو ترکِ واجب کی وجہ سے گناہ بھی ہوگا اور نماز واجبُ الاِعادہ ہوگی یعنی اس نماز کو  دہرانا (دوبارہ پڑھنا)واجب ہے۔ نیز امام چونکہ مقتدیوں کی نماز کا ضامن ہوتا ہے تو جس صورت میں امام کی نماز نہیں ہوگی اور اعادہ فرض ہوگا اس صورت میں مقتدیوں کی نماز بھی نہیں ہوگی، ان پر بھی اعادہ فرض ہوگا، یونہی جس صورت میں امام کی نماز واجبُ الاِعادہ ہوگی، مقتدیوں کی نماز بھی واجبُ الاِعادہ ہوگی۔

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّوَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم

 

اقامت میں کب کھڑا ہونا سنّت ہے؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

    احناف کے نزدیک اس بارے میں حکم یہ ہے کہ امام و مقتدی جب مسجد میں موجود ہوں تو اس صورت میں امام و مقتدی سب حَیَّ عَلَی الْفَلَاح پر کھڑے ہوں اور حَیَّ عَلَی الْفَلَاح پر کھڑا ہونا سنّت  مستحبہ اور اسے صرف سنّت  ہی کہہ لیا جائے توبھی کچھ حرج نہیں اور یوں بھی ٹھیک ہے کہ حَیَّ عَلَی الصَّلٰوۃ پر کھڑا ہونا شروع کریں اور حَیَّ عَلَی الْفَلَاح پر مکمل کھڑے ہوجائیں۔چنانچہ حاشیۂ شلبی علی التبیین میں ہے:”قال فی الوجیز: والسنۃ ان یقوم الامام و القوم اذا قال المؤذن حی علی الفلاح اھ۔ و مثلہ فی المبتغی“یعنی وجیز میں ہے:سنّت یہ ہے کہ امام اور قوم اس وقت کھڑے ہوں جب موذن حَیَّ عَلَی الْفَلَاح کہے۔ اسی بات کے مثل ”المبتغی“ میں ہے۔(حاشیہ شلبی علی تبیین الحقائق شرح کنز الدقائق، 1 /283)

     کتاب مَا لَا بُدَّ مِنْہُ میں ہے: ”طریق خواندن نماز بر وجہ سنت آنست کہ اذان گفتہ شود واقامت ونزد حَیَّ عَلَی الصَّلٰوۃ امام برخیزد (ومقتدیاں نیز بر خیزد)۔“ نماز پڑھنے کا سنّت  طریقہ یہ ہے کہ اذان و اقامت کہی جائے اور اقامت کہنے والے کے حَیَّ عَلَی الصَّلٰوۃ کے ساتھ امام کھڑا ہو(اور مقتدی بھی)۔ (ما لا بد منہ فارسی، ص28)

    عمدۃ المحققین حضرت علامہ مفتی محمد حبیب اللہ نعیمی بھاگلپوری علیہ رحمۃ اللہ القَوی فرماتے ہیں:”جب اقامت شروع کرنے سے پہلے مقتدی مسجد میں حاضر ہوں اور امام بھی اپنے مصلے پر یا اس کے قریب میں موجود ہو اور اقامت کہنے والا شخص خود امام نہ ہو تو اس صورت میں سب کو حَیَّ عَلَی الصَّلٰوۃ یا حَیَّ عَلَی الْفَلَاح پر کھڑا ہونا چاہئے، یہی مسنون و مستحب ہے۔ اس صورت میں ابتدائے اقامت سے کھڑے ہونے کو حنفی مسلک میں ہمارے فقہائے کرام نے مکروہ تحریر فرمایا ہے۔“(حبیب الفتاویٰ، ص134)

    اس حالت میں کھڑے کھڑے اقامت سننا مکروہ ہے۔ رد المحتار میں ہے:”یکرہ لہ الانتظار قائماً و لکن یقعد ثم یقوم اذا بلغ المؤذن حی علی الفلاح“یعنی کھڑے ہو کر انتظارِ نماز نہ کرے کہ مکروہ ہے، بلکہ بیٹھ جائے پھر جب مؤذن ”حَیَّ عَلَی الْفَلَاح“ کہے تو کھڑا ہو۔(رد المحتار، 2/88)

    بخاری شریف کی حدیث پاک ”اذا اقیمت الصلٰوۃ فلاتقوموا حتی ترونی“ کے تحت عمدۃ القاری شرح بخاری میں صحابۂ کرام کے عمل کے بارے میں ہے: ”وکان انس رضی اللہ تعالٰی عنہ یقوم اذا قال المؤذن قد قامت الصلٰوۃ“ یعنی حضرت انس رضی اللہ تعالٰی عنہ اس وقت کھڑے ہو تے تھے جب مؤذن قد قامت الصلٰوۃ کہتا مزید اسی صفحہ پر ہے ”و فی المصنف کرہ ھشام یعنی ابن عروہ ان یقوم حتی یقول المؤذن قد قامت الصلٰوۃ“ یعنی مصنف میں ہے کہ ہشام بن عروہ اقامت میں قَدْ قَامَتِ الصَّلٰوۃُ سے پہلے کھڑے ہو نے کو مکروہ جانتے تھے۔( عمدۃ القاری، 4 /215)

    علامہ ابو بکر بن مسعود کاسانی قُدِّسَ سِرُّہُ النُّوْرَانِی بدائع الصنائع میں فرماتے ہیں:”والجملۃ فیہ ان المؤذن اذا قال حی علی الفلاح فان کا ن الامام معھم فی المسجد یستحب للقوم ان یقوم فی الصف“ یعنی خلاصہ کلام یہ کہ امام قوم کے ساتھ مسجد میں ہو تو سب کو اس وقت کھڑا ہو نا مستحب ہے جب مؤذن حَیَّ عَلَی الْفَلَاح کہے۔( بدائع الصنائع ،1 / 467 )

    یونہی تَبْیِیْنُ الْحَقَائِق میں ہے:”والقیام حین قیل حی الفلاح لانہ امر بہ و یستحب المسارعۃ الیہ۔“(تبیین الحقائق، 1/283)

    صدرالشریعہ مفتی محمدامجد علی اعظمی علیہ رحمۃ اللہ القَوی فرماتے ہیں:”اقامت کے وقت کوئی شخص آیا تو اسے کھڑے ہو کر انتظار کرنا مکروہ ہے، بلکہ بیٹھ جائے جب حَیَّ عَلَی الْفَلَاحِ پر پہنچے اس وقت کھڑا ہو۔ یوہیں جو لوگ مسجد میں موجود ہیں، وہ بیٹھے رہیں، اس وقت اٹھیں،جب مُکَبِّرحَیَّ عَلَی الْفَلَاحِ پر پہنچے، یہی حکم امام کیلئے ہے۔آج کل اکثر جگہ رواج پڑگیا ہے کہ وقت اقامت سب لوگ کھڑے رہتے ہیں بلکہ اکثر جگہ تو یہاں تک ہے کہ جب تک امام مصلے پر کھڑا نہ ہو، اس وقت تک تکبیر نہیں کہی جاتی،یہ خلافِ سنّت  ہے۔“(بہار شریعت ، حصہ3،1/471)

    خاتم المحققین علامہ ابن عابدین شامی علیہ الرَّحمہ نے حَیَّ عَلَی الْفَلَاح پر کھڑا ہونے کے بارے میں 14کتابوں کا حوالہ دیا ہے چنانچہدرمختار کی عبارت ”والقیام لامام ومؤتم حین قیل حی علی الفلاح“ کے تحت فتاویٰ شامی میں ہے ”کذا فی الکنز ونور الایضاح والاصلاح والظھیریۃ والبدائع وغیرھا والذی فی الدرر متنا وشرحا عند الحیعلۃ الاولی:یعنی حیث یقال حی علی الصلاۃ اھ وعزاہ الشیخ اسماعیل فی شرحہ الی عیون المذاھب والفیض والوقایۃ والنقایۃ والحاوی والمختار اھ قلت واعتمدہ فی متن الملتقی،وحکی الاولی بقیل، لکن نقل ابن الکمال تصحیح الاول ونص عبارتہ:قال فی الذخیرۃ: یقوم الامام والقوم اذا قال الموذن حی علی الفلاح عند علمائنا الثلثۃ“ یعنی اسی طرح (1)کنز (2)نورالایضاح (3)اِصلاح (4)ظہیریہ (5)بدائع وغیرہ میں ہے، (6)درر کےمتن اور شرح میں یہ ہے کہ حَیَّ عَلَی الصَّلٰوۃ کہنے پر کھڑا ہو، شیخ اسماعیل رحمۃ اللہ تعالٰی علیہنے اس قول کو (7)عیون المذاھب (8)فیض (9)وقایہ (10)نقایہ (11)حاوی (12)مختار کی طرف منسوب فرمایا،میں کہتا ہوں کہ اس پر (13)ملتقی کے متن میں اعتماد کیا ہے،اور پہلے کو قیل کے ساتھ نقل کیا ہے، لیکن علامہ ابنِ کمال رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ نے پہلے قول ہی کی تصحیح نقل کی ہے ان کی عبارت یہ ہے: (14)ذخیرہ میں فرمایا: ”امام اور مقتدی اس وقت کھڑے ہوں جب مؤذن حَیَّ عَلَی الْفَلَاح کہے یہی ہمارے علماء ثلاثہ کے نزدیک حکم ہے“۔(رد المحتار، 2/216)

    14 کتابیں تو علامہ شامی قُدِّسَ سِرُّہُ السَّامِی نے ذکر فرمائیں ہیں۔ اس کے علاوہ تنویرالابصار، درمختار، عمدۃ القاری اور خود ردالمحتار تو یہ کل 18کتابیں ہوئیں۔ حکمِ شرعی ماننے اور اس پر عمل کرنے والے کے لئے ایک ہی کتاب کافی ہے اور نہ ماننے والے کے لئے اگر پورا ذخیرہ بھی نقل کردیا جائے تو ناکافی ہے۔ خلیفۂ اعلیٰ حضرت، ملک العلماء، محدث کبیر حضرت علامہ مولانا مفتی ظفر الدّین بہاری علیہ رحمۃ اللہ البارِی نے اس موضوع پر ایک رسالہ ”تنویر المصباح“ کے نام سے تحریر فرمایا ہے جس میں آپ نے 50کتابوں کے حوالے سے اس مسئلے میں احناف کے مؤقف کو واضح کیا ہے تفصیل کے لئے اُسے ملاحظہ فرمائیں۔  اللہ تعالیٰ حکم شرعی پر عمل کرنے کی سعادت عطا فرمائے۔

اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم